اس گل زمیں سے اب تک اُگتے ہیں سرو جس جا مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایا پوجے سے اور پتھر ہوتے ہیں یہ صنم تو اب کس طرح اطاعت ان کی کروں خدایا تاچرخ نالہ پہنچا لیکن اثر نہ دیکھا کرنے سے اب دعا کےمیں ہاتھ ہی اُٹھایا آخر کو مر گئے ہیں اُس کی ہی جستجو میں جی کے تئیں بھی کھویا لیکن اُسے نہ پایا لگتی نہیں ہے دارو ہیں سب طبیب حیراں اک روگ میں بِساہا جی کو کہاں لگایا
Related posts
-
احمد فراز ۔۔۔ آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اُتر جائے گا وقت کا کیا ہے گزرتا ہے... -
محمد علوی ۔۔۔ دن میں پریاں کیوں آتی ہیں
دن میں پریاں کیوں آتی ہیں ایسی گھڑیاں کیوں آتی ہیں اپنا گھر آنے سے پہلے... -
سید آل احمد ۔۔۔ سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی
سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی ملے ہیں زخم ترے قرب کی بہار سے...